دنیا میں رہنے کے لئے رُوح و صحت افزاء مقام ”اپنی اَوقات“
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
انسان جتنی زیادہ کوئی تواضع اور خاکساری اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اُتنا ہی اُسے بلند مرتبہ عطا کرتا ہے۔
(مسلم کتاب البرّ والصلۃ)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
انسان جتنی زیادہ کوئی تواضع اور خاکساری اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اُتنا ہی اُسے بلند مرتبہ عطا کرتا ہے۔
(مسلم کتاب البرّ والصلۃ)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَیسَ مِنَّا مَنْ لَّمْ یَرحَمْ صَغِیرَنَا وَ یَعرِفْ حَقَّ کَبِیرِنَا
(الادب المفرد للبخاری باب رحمۃ الصغیر)
کہ وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو چھوٹوں سے رحم کا سلوک نہیں کرتا اور ہمارے بڑوں کے حقوق کا پاس نہیں کرتا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
”ہاں یہ مبارک مذہب جس کا نام اسلام ہے وہی ایک مذہب ہے جو خدا تعالیٰ تک پہنچاتا ہے اور وہی ایک مذہب ہے جو انسانی فطرت کے پاک تقاضوں کو پُورا کرنے والاہے۔“
( حقیقۃالوحی ، روحانی خزائن جلد22 صفحہ64)
صحابہ رضوان اللہ علیہم نے سرورِ کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ایثار کی تربیت پاکر اُسے اپنی عملی زندگی میں اپنایا۔ یرموک کی جنگ میں حارث بن ہشام، عکرمہ بن ابی جہل اور سُہَیل بن عَمرو (رضی اللہ عنہم) شہید ہوئے۔ وہ جب زخمی حالت میں پڑے تھے تو (لوگ) اُن کے پاس پانی لائے۔ لیکن ان میں سے ہر ایک نے جب اس کی طرف پانی بڑھایا گیا اسے اگلے آدمی کے پاس بھیج دیا اور کہا کہ یہ پانی اُسے پلا دو۔ چنانچہ وہ سب وفات پاگئے اور ان میں سے کسی نے پانی نہ پیا۔ راوی نے بتایا کہ عکرمہ نے پانی طلب کیا لیکن انہوں نے دیکھا کہ سہیل ان کی طرف دیکھ رہے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ یہ پانی انہیں پلا دو۔ پھر سہیل نے دیکھا کہ حارث ان کی طرف دیکھ رہے ہی تو انہوں نے بھی کہا کہ اس کو پانی دے دو۔ پانی ابھی ان تک نہیں پہنچا تھا کہ وہ سب وفات پاگئے۔
(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد3ذکر عکرمہ)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرماتے ہیں۔
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے آخری شرعی نبی بنا کر مبعو ث فرمایا… اس عظیم اعزاز نے آپؐ میں کسی جاہ و جلال کا اظہار پیدا نہیں کیا… بلکہ اس چیز نے آپؐ میں.مزید مسکینی، سادگی اور قناعت پیدا کی کیونکہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کا اور شریعت کا اور اس تعلیم کا جو اللہ تعالیٰ نے آپؐ پر نازل فرمائی سب سے زیادہ فہم و ادراک آپؐ کو ہی تھا۔“
(خطبہ جمعہ فرمودہ 12 اگست 2005 ء)
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ :
مَنۡ سَتَرَ عَلَی مُسۡلِمٍ فِیۡ الدُّنۡیَا سَتَرَ اللّٰہُ عَلَیۡہِ فِیۡ الدُّنۡیَا وَالۡآخِرَۃِ
(حدیقۃ الصالحین صفحہ650 ،حدیث:832)
کہ جو شخص دنیا میں کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اُس کی پردہ پوشی کرے گا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دفعہ پوچھا گیا کہ کون سی ہجرت افضل ہے تو آپؐ نے فرمایا
مَنْ ہَجَرَ مَاحَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ
کہ جن باتوں کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے ان کو چھوڑ دینا۔
(سنن ابوداؤد جلد اول کتاب الصلوٰۃ)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
”خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہماری آنکھیں اور دل اور ہمارے خطرات سب پاک رہیں اس لئے اُس نے یہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم فرمائی سو خدا تعالیٰ نے چاہا کہ نفسانی قویٰ کو پوشیدہ کارروائیوں کا موقع بھی نہ ملے اور ایسی کوئی بھی تقریب نہ آئے۔ جس سے بد خطرات جنبش کر سکیں۔ اسلامی پردہ کی یہی فلاسفی ہے اوریہی ہدایت شرعی ہے۔“
(اسلامی اصول کی فلاسفی صفحہ5)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
”صادق اور مومن کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ نہایت اخلاص اور انشراح صدر کے ساتھ خدا کی رضا کو مقدم کر لیتا ہے اور اُس پر خوش ہوجاتا ہے۔ کوئی شکوہ اور بدظنی نہیں کرتا۔ اس لئے خداتعالیٰ فرماتا ہے وَبَشِّرِالصّٰبِرِیْنَ پس صبر کرنے والوں کو بشارت دو، یہ نہیں فرمایا کہ دعا کرنے والوں کو بشارت دو بلکہ فرمایا کہ صبر کرنے والوں کو۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ انسان اگر بظاہر اپنی دعاؤں میں ناکامی دیکھے تو گھبرا نہ جاوے بلکہ صبر اور استقلال سے خداتعالیٰ کی رضا کو مقدم کرے۔“
(الحکم 10اکتوبر 1902ء)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’میرا یہ مسلک نہیں کہ میں ایسا تُندخُواور بھیانک بن کر بیٹھوں کہ لوگ مجھ سے ایسے ڈریں جیسے درندہ سے ڈرتے ہیں اور مَیں بُت بننے سے سخت نفرت کرتا ہوں۔ مَیں تو بُت پرستی کے ردّ کرنے کو آیا ہوں نہ یہ کہ مَیں خود بُت بنوں اور لوگ میری پُوجا کریں۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ مَیں اپنے نفس کو دوسروں پر ذرا بھی ترجیح نہیں دیتا ۔ میرے نزدیک متکبِّر سے زیادہ کوئی بُت پرست اور خبیث نہیں۔ متکبِّر کسی خدا کی پرستش نہیں کرتا بلکہ وہ اپنی پرستش کرتا ہے۔‘‘
(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 41- 42)