جماعتی پروگرامز،میٹنگز اور اجلاسات میں شمولیت کی اہمیت و برکات

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں:
’’جو حالت میری توجہ کوجذب کرتی ہے۔اورجسے دیکھ کرمیں دعاکےلئے اپنے اندر تحریک پاتاہوں وہ ایک ہی بات ہے کہ میں کسی شخص کومعلوم کرلوں کہ یہ خدمت دین کے سزاوار ہے ۔اور اس کاوجود خداکے لئے،خدا کے رسول ؐکے لئے ،خداکی کتاب کے لئے اورخداکے بندوں کے لئے نافع ہے۔ایسے شخص کوجودردوالم پہنچے وہ درحقیقت مجھے پہنچتاہے۔‘‘

مزید پڑھیں

احمدیت نے دنیا کو کیا دیا؟

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
”خدا نے مجھے بھیجا ہے کہ تا مَیں اس بات کا ثبوت دوں کہ زندہ کتاب قرآن ہے اور زندہ دین اسلام ہے اور زندہ رسول محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔“
(مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ 267، ایڈیشن1984ء)

مزید پڑھیں

اِلٰہی صحیفوں، صلحائے اُمت کی پیشگوئیوں کے تناظر میں بعثتِ حضرت مسیح موعودؑ

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’دنیا میں کوئی نبی نہیں گزرا جس کا نام مجھے نہیں دیا گیا ۔سو جیساکہ براہین احمدیہ میں خدا نے فرمایا ہے۔ میں آدمؑ ہوں، میں ابراہیمؑ ہوں، میں اسحاقؑ ہوں، میں یعقوبؑ ہوں، میں اسمٰعیلؑ ہوں، میں موسیٰؑ ہوں، میں داؤدؑ ہوں، میں عیسیٰ ابن مریم ؑ ہوں، میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوں۔ یعنی بروزی طور پر جیسا کہ خدا نے اسی کتاب میں یہ سب نام مجھے دئیے اور میری نسبت جری اللّٰہ فی حلل الانبیاء فرمایا یعنی خدا کا رسول نبیوں کے پیرایوں میں۔ سو ضرور ہے کہ ہر ایک نبی کی شان مجھ میں پائی جاوے اور ہر ایک نبی کی ایک صفت کا میرے ذریعہ سے ظہور ہو۔‘‘
)حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ521(

مزید پڑھیں

نظام وصیت۔روحانی،اخلاقی اور مادی ترقیات کا ذریعہ

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’جب وصیت کا نظام مکمل ہوگا تو صرف تبلیغ ہی اس سے نہ ہوگی بلکہ اسلام کے منشا کے ماتحت ہر فرد بشر کی ضرورت کو اس سے پورا کیا جائے گا اور دکھ اور تنگی کو دنیا سے مٹا دیا جائے گا انشاءاللہ۔ یتیم بھیک نہ مانگے گا ۔ بیوہ لوگوں کے آگے ہاتھ نہ پھیلائے گی۔ بے سامان پریشان نہ پھرے گا کیونکہ وصیت بچوں کی ماں ہوگی ، جوانوں کی باپ ہوگی ،عورتوں کا سہاگ ہوگی اور جبر کے بغیر محبت اور دلی خوشی کے ساتھ بھائی بھائی کو اس کے ذریعے سے مدد کرے گا اور اس کا دینا بے بدلہ نہ ہوگا بلکہ ہر دینے والا خداتعالی ٰسے بہتر بدلہ پائے گا ۔ نہ امیر گھاٹے میں رہے گا نہ غریب، نہ قوم قوم سے لڑے گی بلکہ اس کا احسان سب دنیا پر وسیع ہوگا۔‘‘
( نظامِ نو صفحہ130)

مزید پڑھیں

حضرت مسیح موعودؑ کی دعویٰ سے پہلے کی پاکیزہ اور مطہّر زندگی

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’تم غور کرو کہ وہ شخص جو تمہیں اس سلسلہ کی طرف بلاتا ہے وہ کس درجہ کی معرفت کا آدمی ہے اور کس قدر دلائل پیش کرتا ہے اور تم کوئی عیب، افتراء یا جھوٹ یا دغا کا میری پہلی زندگی پر نہیں لگا سکتے تا تم یہ خیال کرو کہ جو شخص پہلے سے جھوٹ اور افتراء کا عادی ہے یہ بھی اس نے جھوٹ بولا ہوگا۔ کون تم میں ہے جو میری سوانح زندگی میں کوئی نکتہ چینی کر سکتا ہے۔ پس یہ خدا کا فضل ہے کہ جو اُس نے ابتداء سے مجھے تقویٰ پر قائم رکھا اور سوچنے والوں کے لئے یہ ایک دلیل ہے۔‘‘
(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 64)

مزید پڑھیں

نظام وصیت اور صحابہ و تابعین مسیح موعودؑ کی قربانیاں

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
”عرصہ ہوا کہ خداتعالیٰ نے مجھ پر ظاہر کیا تھا کہ ایک بہشتی مقبرہ ہو گا گویا اس مَیں وہ لوگ داخل ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کے علم اور ارادہ میں جنتی ہوں گے۔ پھر اس کے متعلق الہام ہوا۔ اُنْزِلَ فِیْھَا کُلَّ رَحْمَۃٍ ۔ اس سے کوئی نعمت اور رحمت باہر نہیں رہتی۔ اب جو شخص چاہتا ہے کہ وہ ایسی رحمت کے نزول کی جگہ میں دفن ہو کیا عمدہ موقع ہے کہ وہ دین کو دنیا پر مقدم کرے اور اللہ تعالیٰ کی مرضی کو اپنی مرضی پر مقدم کرے ۔ “
(ملفوظات جلد 5صفحہ 216)

مزید پڑھیں

بعثتِ مسیح موعود اور تبلیغ-حضرت مسیح موعودؑ کی تحریرات کی رو سے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
’’دعوت الی اللہ کریں۔ حکمت سے کریں، ایک تسلسل سے کریں، مستقل مزاجی سے کریں اور ٹھنڈے مزاج ے ساتھ، مستقل مزاجی کے ساتھ کرتے چلے جائیں۔ دوسرے کے جذبات کا بھی خیال رکھیں اور دلیل کے لئے ہمیشہ قرآن کریم اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابوں سے حوالے نکالیں۔ پھر ہر علم، عقل اور طبقے کے آدمی کے لئے اس کے مطابق بات کریں۔ خدا کے نام پر جب آپ نیک نیتی سے بات کر رہے ہوں گے تو اگلے کے بھی جذبات اَور ہوتے ہیں۔ نیک نیتی سے اللہ تعالیٰ کے نام پر کی گئی بات اثر کرتی ہے۔ ایک تکلیف سے ایک درد سے جب بات کی جاتی ہے تو وہ اثر کرتی ہے۔“
(خطبہ جمعہ فرمودہ8؍اکتوبر2004ء)

مزید پڑھیں

تبلیغ کے لیے حضرت مسیح موعودؑکی تحریرات کا خزانہ

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’مجھ پر اور میری جماعت پر جو یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبییّن نہیں مانتے یہ ہم پر افترائے عظیم ہے۔ ہم جس قوّت ،یقین ، معرفت اور بصیرت سے آنحضرتؐ کو خاتم الانبیاء یقین کرتے ہیں اس کا لاکھواں حصہ بھی دوسرے لوگ نہیں مانتے اور ان کا ایسا ظرف بھی نہیں ہے۔ وہ اس حقیقت اور راز کو جو خاتم الانبیاء کی ختمِ نبوّت میں ہے سمجھتے ہی نہیں ہیں ، انہوں نے صرف باپ دادا سے ایک لفظ سنا ہوا ہے مگر اس کی حقیقت سے بے خبر ہیں اور نہیں جانتے کہ ختم نبوّت کیا ہوتا ہے اور اس پر ایمان لانے کا مفہوم کیا ہے ؟ مگر ہم بصیرتِ تامّ سے (جس کو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے ) آنحضرتؐ کو خاتم الانبیاء یقین کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ نے ہم پر ختمِ نبوّت کی حقیقت کو ایسے طور پر کھول دیا ہے کہ اس عرفان کے شربت سے جو ہمیں پلایا گیا ہے ایک خاص لذّت پاتے ہیں جس کا اندازہ کوئی نہیں کر سکتا بجز ان لوگوں کے جو اِس چشمہ سے سیراب ہوں۔ ‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ342)

مزید پڑھیں

خلافت ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے

خلافت ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
’’میری پرورش ایسے ماحول میں ہوئی تھی جس میں یہ سکھایا گیا تھا کہ خلافت کے بغیر کوئی زندگی نہیں ،کوئی روحانی زندگی نہیں۔ جب میں وقف کرکے غانا گیا تو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی کو باقاعدگی سے خطوط لکھتا تھا ۔پھر حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ کو بھی اسی طرح باقاعدگی سے خطوط لکھتا تھا ۔ پھر میں اپنے لیے دعا بھی کرتا رہتا تھا کہ میں ہمیشہ خلافت کے قریب رہوں اور کبھی بھی ایسا کچھ نہ کروں کہ جس سے خلیفہ وقت کو تکلیف ہو۔ یہ دو چیزیں ہیں جن سے آپ خلافت سے تعلق مضبوط کر سکتے ہیں۔ خلیفہ المسیح سے زندہ تعلق قائم رکھیں اور پھر خلیفہ وقت کے لئے مسلسل دعائیں کرتے رہیں۔ اپنے لیے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالی آپ کو ایمان میں پڑھائے اور خلیفہ المسیح سے سے تعلق میں ترقی اور مضبوطی عطا فرمائے ‘‘۔
( حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا دورہ امریکہ2022ء قسط17از الفضل آن لائن لندن)

مزید پڑھیں
brass-colored and blue dome building during daytime

واقعہ معراج اور اسراء کی حقیقت

واقعہ معراج اور اسراء کی حقیقت
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’قرآن شریف کی یہ آیت کہ سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسۡرٰی بِعَبۡدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اِلَی الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِیۡ بٰرَکۡنَا حَوۡلَہٗ معراج مکانی اور زمانی دونوں پر مشتمل ہے اور بغیر اس کے معراج ناقص رہتا ہے۔ پس جیسا کہ سیر مکانی کے لحاظ سے خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد الحرام سے بیت المقدس تک پہنچا دیا ایسا ہی سیر زمانی کے لحاظ سے آنجناب کو شوکتِ اسلام کے زمانہ سے جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تھا برکاتِ اسلامی کے زمانہ تک جو مسیح موعود کا زمانہ ہے پہنچا دیا۔ پس اس پہلو کی رو سے جواسلام کے انتہا زمانہ تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سیر کشفی ہے مسجداقصیٰ سے مراد مسیح موعود کی مسجدہے۔‘‘

مزید پڑھیں