آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا رہن سہن اور روزمرہ کے معمولات

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں
میں نے کوئی چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر حسین نہیں دیکھی گویا آفتاب کی چمک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر بہہ رہی ہوتی تھی اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے زیادہ تیز چلنے والا کوئی نہیں دیکھا گویا زمین آپ کے لیے سمٹتی چلی جاتی تھی۔ہم بڑی جدوجہد کرتے ہوئے آپ کے ساتھ چلتے اور آپ بڑے اطمینان سے چل رہے ہوتے۔

مزید پڑھیں

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور خشیتِ الٰہی

حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوں دعا کیا کرتے تھے کہ
اَللّٰھُمَّ اِنّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ قَلْبٍ لَا یَخْشَعُ وَدُعَآءٍ لَا یُسْمَعُ وَمِنْ نَّفْسٍ لَا تَشْبَعُ وَمِنْ عِلْمٍ لَا یَنْفَعُ۔ اَعُوْذُبِکَ مِنْ ھٰؤُلَآءِ الْاَرْبَع۔
کہ اے اللہ! مَیں تیری پناہ چاہتا ہوں ایسے دل سے جو خشوع نہیں کرتا اور ایسی دعا سے جو سنی نہیں جاتی اور ایسے نفس سے جو سیر نہیں ہوتا اور ایسے علم سے جو نفع رساں نہیں ہے۔ مَیں تجھ سے ان چاروں سے پناہ چاہتا ہوں۔
(سنن الترمذی کتاب الدعوات باب 68 حدیث: 3482)

مزید پڑھیں

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ بنت وہب

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ کا نام آمنہ بنت وہب تھا ۔ آپ کا تعلق قبیلہ بنو زہرہ سے تھا جو قریش ہی کا ایک ذیلی قبیلہ تھا۔ آپ کے والد کا نام وہب بن عبدمناف تھا۔ آپ کے والد اپنے قبیلے کے معزز سردار تھے اور بنو زہرہ قبیلے میں ایک مثالی حیثیت کے مالک تھے ۔

مزید پڑھیں

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کےوالد ماجد حضرت عبد اللہ ابن عبدالمطلب

عبد اللہ ابن عبد المطلب تمام بیٹوں میں سب سے زیادہ باپ کے لاڈلے اور پیارے تھے۔ آپ حسن و خوبی کے پیکر اور جمالِ صورت و کمال سیرت کے آئینہ دار اور عفت و پارسائی میں یکتائے روزگار تھے ۔

مزید پڑھیں

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پسندیدہ کھانے اور تناول کرنے کے آداب

حضرت عائشہ ؓ نے بیان فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو میٹھا اور شہد بھی بہت پسند تھا۔ آپ ؐ بُھنا ہوا گوشت بھی بخوشی تناول فرماتے ۔

مزید پڑھیں

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے صحابہؓ سے محبت

ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بازار تشریف لے گئے تو دیکھا کہ آپؐ کا ایک بدوی صحابی زاہر ؓمحنت مزدوری کر رہا ہے۔ ایک تو شکل کچھ ایسی اچھی نہ تھی دوسرے گردو غبار اور پسینہ کی وجہ سے اور بھی بد نما دکھائی دے رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیارے دوست کو دیکھا تو قلبی محبت بھڑک اٹھی۔ آپ نے دبے پاؤں قریب جا کر پیچھے سے اُس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیے۔ زاہر حیرت میں گم ہو گیا کہ مجھ غریب، بے کس اور بد صورت سے اِس انداز میں اظہار محبت کرنے والا کون ہو سکتا ہے۔ پھر خود ہی خیال آیا کہ رحمتِ دو عالم، محمد عربی کے سوا اور کون ہو سکتا ہے؟ ہاتھوں کو چھوا تو اس بات کا یقین ہو گیا۔ زاہرؓ نے موقع غنیمت جان کر اپناخاک آلود جسم آپ کے جسم مبارک سے ملنا شروع کردیا۔ زاہر کا یہ اندازِ محبت دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے رہے ۔

مزید پڑھیں

خلفاء کرام کی خدام الاحمدیہ سے توقعات

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
’’ میں نے متواتر جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ قوموں کی اصلاح نوجوانوں کی اصلاح کے بغیر نہیں ہو سکتی نئی نسلیں جب تک اس دین اور ان اصول کی حامل نہ ہو ں جن کو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کے نبی اور ماموردنیا میں قائم کرتے ہیں اس وقت تک اس سلسلہ کی ترقی کی طرف کبھی بھی صحیح معنوں میں قدم نہیں اٹھ سکتا ۔‘‘
)الفضل 10؍اپریل 1938ء(

مزید پڑھیں

آنحضورؐ مہمان نوازی اور تواضع کے اخلاق کے آئینہ میں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مہمان نوازی کا معیار اس قدر بلند تھا کہ جو دوسروں کے مقابلے میں ایک امتیازی شان رکھتا تھا اور نبوت کے دعوے کے بعد تو یہ مہمان نوازی ایک ایسی اعلیٰ شان رکھتی تھی کہ جس کی مثال ہی کوئی نہیں ہے۔
اس بارہ میں آپؐ کے اُسوہ حسنہ کو دیکھیں تو صرف وہاں یہ نہیں ہے کہ سلامتی بھیجنے کی باتیں ہو رہی ہیں بلکہ کھانے پینے کی مہمان نوازی کے علاوہ بھی یا استقبال کرنے کے علاوہ بھی ایسے ایسے واقعات ملتے ہیں جن کے معیار اعلیٰ ترین بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہمان کو کھانے کا انتظام کے احسن رنگ میں کرنے سے ہی صرف عزت نہیں بخشی بلکہ مہمان کے جذبات کا خیال بھی رکھا۔ اس کی چھوٹی چھوٹی ضروریات کا خیال بھی رکھا اور اس کے لئے قربانی کرتے ہوئے بہتر سہولیات اور کھانے کا انتظام بھی کیا۔ اس کے لئے خاص طور پر اپنے ہاتھ سے خدمت بھی کی اور اس کی تلقین بھی اپنے ماننے والوں کو کی کہ یہ اعلیٰ معیار ہیں جو مَیں نے قائم کئے ہیں۔ یہ میرا اسوہ اس تعلیم کے مطابق ہے جو خداتعالیٰ نے مجھ پر اتاری ہے۔ تم اگر مجھ سے تعلق رکھتے ہو تو تمہارا یہ عمل ہونا چاہئے۔ تمہیں اگر مجھ سے محبت کا دعویٰ ہے تو اس تعلق کی وجہ سے، اس محبت کی وجہ سے، میری پیروی کرو اور یہ مہمان نوازی اور خدمت بغیر کسی تکلف، کسی بدل اور کسی تعریف کے ہو اور خالصتاً اس لئے ہو کہ خداتعالیٰ نے یہ اعلیٰ اخلاق اپنانے کا حکم دیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی ہمارا مقصود اور مطلوب ہونا چاہئے۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ17جولائی 2009ء)

مزید پڑھیں

صحابہ رضوان اللہ علیہم کا عشقِ رسولؐ

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاذکرکرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ گالیاں سنتے تھے، جان کی دھمکیاں دے کر ڈرائے جاتے تھے اور سب طرح کی ذلّتیں دیکھتے تھے پر کچھ ایسے نشۂ عشق میں مدہوش تھے کہ کسی خرابی کی پروانہیں رکھتے تھے اور کسی بلا سے ہراساں نہیں ہوتے تھے… ایسے نازک زمانہ میں وفاداری کے ساتھ محبت اور عشق سے بھرے ہوئے دل سے جو دامن پکڑا جس زمانہ میں آئندہ کے اقبال کی تو کیا امید، خود اس مرد مصلح کی چند روز میں جان جاتی نظر آتی تھی۔یہ وفاداری کا تعلق محض قوت ایمانی کے جوش سے تھا جس کی مستی سے وہ اپنی جانیں دینے کے لئے ایسے کھڑے ہوگئے جیسے سخت درجہ کا پیاسا چشمہ شیریں پر بے اختیار کھڑا ہوجاتاہے۔ ‘‘
( ازالۂ اوہام۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 152-151حاشیہ)

مزید پڑھیں

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جنگی قیدیوں سے حسنِ سلوک

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’ دیکھیں! انسانی ہمدردی کی انتہا۔ آپ ہدایت دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دشمن کے منہ پرزخم نہیں لگانا۔ کوشش کرنی ہے کہ دشمن کو کم از کم نقصان پہنچے۔ قیدیوں کے آرام کا خیال رکھنا ہے۔ غالباً جنگ بدر کے ایک قیدی نے بیان کیا کہ جس گھر میں وہ قید تھا اس گھر والے خود کھجور پر گزارا کرتے تھے اور مجھے روٹی دیا کرتے تھے اور اگر کسی بچے کے ہاتھ میں بھی روٹی آ جاتی تھی تو مجھے پیش کر دیتے تھے۔ اس نے ذکر کیاکہ مَیں بعض دفعہ شرمندہ ہوتاتھا اور واپس کرتا تھا لیکن تب بھی (کیونکہ یہ حکم تھا، اسلام کی تعلیم تھی) وہ باصرار روٹی مجھے واپس کر دیا کرتے تھے کہ نہیں تم کھاؤ۔ تو بچوں تک کا یہ حال تھا۔ یہ تھی وہ سلامتی کی تعلیم، امن کی تعلیم، ایک دوسرے سے پیار کی تعلیم، دوسروں کے حقوق کی تعلیم جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت میں قائم کی اور بچہ بچہ جانتاتھا کہ اسلام امن و سلامتی کے علاوہ کچھ نہیں۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ 29؍جون 2007ء)

مزید پڑھیں