آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حُسنِ مزاح
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت مزاح کرتے تھےاور فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ سچا مزاح کرنے والے پر ناراض نہیں ہوتا۔
(جامع الکبیر للسیوطی صفحہ142)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت مزاح کرتے تھےاور فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ سچا مزاح کرنے والے پر ناراض نہیں ہوتا۔
(جامع الکبیر للسیوطی صفحہ142)
آ پ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا”اچھے ہم نشین اور بُرے ہم نشین کی مثال ایسی ہے، جیسے مُشک بیچنے والا اور بھٹیارہ۔ پس مشک بیچنے والا یا تو تمہیں مشک پیش کرے گا یا تم خود اس سے مُشک خرید لوگے، یا (کم ازکم) اس کے پاس سے خوشبو آتی رہے گی۔ اور بھٹیارہ یا تو تمہارے کپڑے جلادے گا۔ یا (کم از کم) اس سے بدبو تمہیں پہنچے گی۔
(صحیح بخاري، الذبائح و الصید، باب المسک)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نےمسلمان تاجروں کو خوش خبری دیتے ہوئے فرمایا:
امانت داراور سچا تاجر قیامت کے دن انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔
(سنن ترمذی،كتاب البيوع عن،باب مَا جَاءَ فِي التُّجَّارِ وَتَسْمِيَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِيَّاهُمْ)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک زاہر نامی دوست دیہات سے آیا کرتے تھے اور دیہات کی چیزوں کا تحفہ آپؐ کو پیش کرتے تھے۔ حضورؐ بھی اِن کو واپسی پر سامان و اسباب دے کر رخصت فرماتے تھے، آپ ؐ نے ایک موقع پر فرمایا: زاہر! ہمارے دیہاتی ساتھی ہیں اور ہم ان کے شہری ساتھی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بڑی محبت فرماتے تھے، وہ خوش شکل بھی نہ تھے۔ ایک دن جب وہ اپنا سامان بازار میں بیچ رہے تھے، آپؐ ان کے پاس تشریف لائے اور پیچھے سے اِن کی آنکھیں بندکرلی۔ جب اِس دوست نے دیکھا کہ میرے سے اتنا پیار کرنے والا کون ہو سکتا ہے تو حضورؐ فرمانے لگے: کون ہے جو اس غلام کو خرید لے؟ حضرت زاہر نے عرض کیا: اللہ کے رسولؐ کے علاوہ کون مجھے خریدے گا۔ مَیں تو ایک کھوٹا مال ہوں ۔ فرمایا ۔ تم اللہ کے نزدیک کھوٹے نہیں ہو، تم تو اللہ کے پاس بہت قیمتی ہو۔
(مسند احمد)
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کی گواہی ان الفاظ میں دی کہ
وَاللّٰهِ لاَ يُخْزِيكَ اللّٰهُ أَبَدًا، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الكَلَّ وَ تَکسِبُ المَعدُومَ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الحَقِّ
(بخاری بدءالوحی)
کہ اللہ کی قسم! کہ وہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ضائع نہیں کرے گا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو رشتہ داروں کا حق ادا کرتے ہیں، غریبوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔ دنیا سے ناپید اخلاق اور نیکیاں قائم کرتے ہیں۔مہمان نوازی کرتے اور حقیقی مصائب میں مدد فرماتے ہیں ۔
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دُعا فرماتے تھے کہ
’’اے اللہ! مجھے مسکینی کی حالت میں زندہ رکھ اور مسکینی کی حالت میں زندہ اُٹھا اور مسکینوں کے گروہ میں میرا حشر فرما۔‘‘
(ترمذی)
حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا جب آپؐ سے بات کرنے لگا تو وہ کانپنے لگ گیا۔ اس پر آپؐ نے اس کو مخاطب کرکے فرمایا کہ تسلی رکھو میں کوئی بادشاہ تونہیں۔ میں تو ایک ایسی عورت کا بیٹا ہوں جو خشک گوشت کھایا کرتی تھی۔
)سنن ابن ماجہ کتاب الاطعمۃ باب القدید(
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں
میں نے کوئی چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر حسین نہیں دیکھی گویا آفتاب کی چمک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر بہہ رہی ہوتی تھی اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے زیادہ تیز چلنے والا کوئی نہیں دیکھا گویا زمین آپ کے لیے سمٹتی چلی جاتی تھی۔ہم بڑی جدوجہد کرتے ہوئے آپ کے ساتھ چلتے اور آپ بڑے اطمینان سے چل رہے ہوتے۔
حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوں دعا کیا کرتے تھے کہ
اَللّٰھُمَّ اِنّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ قَلْبٍ لَا یَخْشَعُ وَدُعَآءٍ لَا یُسْمَعُ وَمِنْ نَّفْسٍ لَا تَشْبَعُ وَمِنْ عِلْمٍ لَا یَنْفَعُ۔ اَعُوْذُبِکَ مِنْ ھٰؤُلَآءِ الْاَرْبَع۔
کہ اے اللہ! مَیں تیری پناہ چاہتا ہوں ایسے دل سے جو خشوع نہیں کرتا اور ایسی دعا سے جو سنی نہیں جاتی اور ایسے نفس سے جو سیر نہیں ہوتا اور ایسے علم سے جو نفع رساں نہیں ہے۔ مَیں تجھ سے ان چاروں سے پناہ چاہتا ہوں۔
(سنن الترمذی کتاب الدعوات باب 68 حدیث: 3482)
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ کا نام آمنہ بنت وہب تھا ۔ آپ کا تعلق قبیلہ بنو زہرہ سے تھا جو قریش ہی کا ایک ذیلی قبیلہ تھا۔ آپ کے والد کا نام وہب بن عبدمناف تھا۔ آپ کے والد اپنے قبیلے کے معزز سردار تھے اور بنو زہرہ قبیلے میں ایک مثالی حیثیت کے مالک تھے ۔
مزید پڑھیں